اُردُو
Perspective

ایرانی انقلاب۔۔۔۔چالیس سال بعد

چالیس سال قبل اسی ہفتے ایرانی انقلاب نے شا ہ کی آمریت کا خاتمہ کر دیا تھا۔۔۔ایک ایسی ظالمانہ حکومت جسے 1953 کی امریکہ کی منظم کردہ بغاوت اقتدار میں لائی تھی اور جس نے چوتھائی صدی تک مشرقِ وسطیٰ اور سارے یوروشیا میں امریکی مظالم اور ریشہ دوانیوں کیلئے مرکز ومحور کا کردار ادا کیا تھا۔

یہ پاپولر بغاوت جس نے شاہ محمد رضا پہلوی کی حکو مت، اسکے درباریوں،قریبی سرمایہ داروں اور ساواک کے ظالموں کو تاریخ کے کوڑادان میں پھینک دیا، ایک سال کے احتجاجی مظاہروں اور ہڑتالوں کا نقطہ عروج تھا۔ مزدور طبقے کے وسیع تر حصوں، شہری متوسط اور غریب طبقے نے شاہ کی اس بادشاہانہ آمریت کے خلاف جدوجہد میں حصہ لیا تھا۔ لیکن یہ ایران کے تیل کے کارخانوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی ہڑ تال تھی جس نے امریکی حمایت یا فتہ مطلق العنان حکومت کی کمر توڑ دی تھی۔

1979 کے ایران اور 1917 کے روس کے درمیان حیرت انگیز مماثلت پائی جاتی تھی اور اس پر اس وقت کے سرمایہ دارانہ میڈیا میں بھی بہت ذیادہ تبصرہ کیا گیا تھا۔ شاہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد انقلابی بیداری کی یہ لہر ذیادہ وسیع اور گہری ہو گئی۔ اگرچہ مزدوروں نے کارخانوں پر قبضہ کر لیا تھا اور انہوں نے وہاں جدوجہد کی نئی تنظیمیں بھی بنا لی تھیں اور دیہات کے باشندوں نے غیر حاضرزمین داروں کی زمینوں پر قبضہ بھی کر لیا تھا اس کے با وجود اقتدار مزدوروں کی اس حکومت کو منتقل نہ ہو سکا جس کا انحصار دیہی محنت کشوں اور شہری غریبوں پر تھا۔

اس کے بجائے۔۔۔۔پُر تشدد حملوں اور بائیں بازوں اور مزدور طبقے کی تمام خودمختار تنظیموں کو وحشیانہ جبر کے ذریعے دبانے کے بعد ہی۔۔۔۔ایک سرمایہ دارانہ حکومت اقتدار پر اپنی گرفت کو آنیوالے تین سالوں میں بمشکل مظبوط کر سکی۔

اس حکومت کی جڑیں اُن چھوٹے تاجروں اورایرانی بورژوازی کے اُن روایتی دھڑوں میں تھیں جو ایران کی بڑھتی ہوئی تیل کی دولت پر شاہ، اسکے حواریوں اور سامراج کی اجارہ داری سے ناراض تھے۔ سیاسی طور پر، یہ اُن مختلف قسم کے مُلاؤں پر مشتمل تھی جنہوں نے شیعیت کی پاپولر مقبولیت اورعوامی نعروں کو اس سامراج مخالف بغاوت کو کمزور کرنے اور دبانے کیلئے استعمال کیاتھا۔ بورژوا ملکیت کے محافظوں کے طور پر، شیعہ مُلا نے اپنے لیئے اسلامی جمہوریہ کے سیاسی اداروں میں سپریم لیڈر کی اعلیٰ مرتبت حیثیت حاصل کر لی جس پر 1989 میں اپنی وفات تک آیت اللہ خمینی فائض رہا اور اسکے بعد سے یہ عہدہ آیت اللہ خامنائی کے پاس چلا آرہا ہے۔

سٹالنسٹ تودہ پارٹی کا ردِانقلابی کردار:

یہ سٹالنسٹ تودہ پارٹی اور سٹالنزم کی سیاست ہے جو بنیادی طور پر ایرانی انقلاب کے پٹڑی سے اُتر جانے کی ذِمہ دار ہے۔

ایرانی مزدور طبقے اور انقلابی سوشلزم کے درمیان ایک طویل اور گہرا تعلق ہے، جو بیسویں صدی کے پہلے عشرے تک چلا جاتا ہے، جب تیل کے کارخانوں اور جنوبی روس کی دیگر صنعتوں میں کام کرنے والے نقل وطن ایرانی مزدوروں کو بالشویک پارٹی کے کار کنوں نے سیاسی شعوروآگہی سے روشناس کرایا۔

دوسری عالمی جنگ کے خاتمے پر، تودہ پارٹی ایران کی بڑی سیاسی جماعت کے طور پر منظر عام پر آئی، یہ اُس مُبارز ٹریڈ یونین تحریک کی رہنما تھی جس کے لاکھوں ورکر تھے، اور جس کا اقتدار میں آنے کا قوی امکان بھی تھا۔ تاہم، مینشویک۔سٹالنسٹ کے دو مرحلو ں پر مشتمل انقلاب کے نظرئیے کو اختیار کرنے کے بعد، تودہ پارٹی بتدریج مزدور طبقے کو بورژوازی کے مبینہ ”ترقی پسندبازو“ کے ماتحت لے آئی اور یوں اُس نے وہ سیاسی صورتحال پیدا کرنے میں معاونت کی جس میں 1953 کی سی آئی اے کی تیار کردہ بغاوت شاہ کی آمرانہ حکومت کو اقتدار میں لے آئی۔

جلاوطنی میں، تودہ پارٹی کی قیادت شاہ کی حکومت کے منحرفوں کے ساتھ اتحاد بنانے کی کوشش میں اور بھی دائیں بازو کی جانب سرک گئی، ان منحرفوں میں وہ جنرل بھی شامل تھا جس نے 1953 کی بغاوت کے بعد پارٹی کو وحشیانہ جبر کے ذریعے دبانے کے عمل کی نگرانی کی تھی۔ چونکہ وہ ایرانی مزدوروں کے ساتھ تعلق جوڑنے کی کسی بھی سنجیدہ کوشش کو ترک کر چکی تھی، اس لئے 1978 میں جب شاہ کی حکومت کے خلاف بغاوت ایک زور دار دھماکے کی صورت میں پھٹ پڑی تو سٹالنسٹ حیرت ذدہ رہ گئے۔

اس کے بعد تو وہ خمینی کو ”قومی جمہوری انقلاب“ کا رہنما قرار دیتے ہوئے اس کا باقاعدہ اتباع کرنے لگے، اور یوں تودہ پارٹی جو اثرورسوخ رکھتی تھی بلخصوص صنعتی مزدوروں کے ایک دھڑے کے درمیان، اُسے بھی ایرانی بورژوازی کی خدمت کیلئے وقف کر دیا۔ دسمبر 1979 میں، تودہ پارٹی کے جنرل سیکرٹری نوردین کیانوری نے بڑی بدنامی مول لیتے ہوئے سٹالنسٹ کے خمینی حکومت کے ساتھ تعاون کو ”سٹریٹجک“ قراردیا، یہ کہہ کر”شیعیت ایک انقلابی اور ترقی پسند نظریہ ہے جو سوشلزم کی جانب ہمارے راستے کو کبھی نہیں روکے گی“۔

سوشلسٹ ذہن کے نوجوانوں کے فکری انتشار میں ایک اہم کردار اُن مصلح گوریلا گروپوں نے بھی ادا کیا جو کسی حد تک تودہ پارٹی کی دائیں بازو کی سیاست کے ردِعمل میں 1970 کے عشرے کی ابتداء میں نمودار ہوئے تھے۔ سٹالزم،ماؤازم، گوویرا ازم، تھرڈورلڈزم کے ایک منتخب ملغوبے پر مبنی اور بعض صورتوں میں تو ”اسلامک سوشلزم“ ببھی اس میں شامل تھا، ایسے گروپوں جیسے پیپلز فدائین اور پیپلزمجاہدین نے سوشلسٹ ذہن کے نوجوانوں کو مزدور طبقے سے دور کر دیااور شیعہ مُلا اور ایرانی بورژازی کی انقلابی صلاحیتوں اور سامراج مخالفت کے فریبوں کو پروان چڑھایا۔

امریکی سامراجیت کیلئے، تو ایرانی انقلاب ایک شدید دھچکہ تھا، شاہ کی بیدخلی سے صرف 14 ماہ قبل، امریکی صدر جمی کارٹر نے اس کی حکومت کو ”استحکام کا ایک جزیرہ“ قرار دیا تھا۔

تاہم، تختِ طاؤس کے انہدام کے بعدواشنگٹن کا سب سے بڑا خوف وخدشہ یہ تھا کے سامراج مخالف بیداری کی یہ لہر ایک سوشلسٹ انقلاب پر منتج نہ ہو، یا اگر امریکی سرد جنگ کے منشور سے دیکھا جائے تو، تودہ پارٹی کو اقتدار نہ مل جائے۔ امریکہ نے برطانیہ اور فرانس کے ساتھ مل کر۔۔۔۔جہاں خمینی، جو 1965 سے جلا وطن تھا، اور جہاں اس نے انقلاب سے قبل کے چند ماہ بسر کیئے تھے۔۔۔۔۔یہ اشارہ دیا کہ وہ آیت اللہ اور فروری 1979 میں اُس نے جو عبوری حکومت قائم کی اس کے ساتھ کام کرنے کیلئے تیار تھے۔

اگر تعلقات جلد خراب ہوئے تو اسکی وجہ یہ تھی کہ واشنگٹن چاہتا تھا کہ ایران خود کو مکمل طور پر امریکی سٹیٹجک مقاصد کے تابع کر دے۔ اس مطالبے سے نہ صرف ایرانی بورژوازی کے بالا دست طبقات کے مفادات پر ضرب پڑی تھی جنکا ترجمان خمینی تھا، بلکہ اس آیت اللہ نے یہ بھی جان لیا تھا کہ کوئی بھی ایرانی حکومت جو واشنگٹن کے سامنے سجدہ ریز ہو باغی عوام کے ساتھ اسکا تصادم ناگزیر ہوگا۔

خمینی نے 1979 کے امریکی سفارت خانے پر قبضے(یرغمالی بحران) کو مہدی بزرگان، جو بطور وزیراعظم اسکا پہلا انتخاب تھا اور شاہ مخالف بورژوازی روایتی حزب اختلاف، جو انقلاب کے عمل کو روکنے اور اور امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کرنے کیلئے بے چین تھی، دونو ں کو کھڈے لائن لگانے کیلئے استعمال کیا۔

یہ تو خمینی حکومت کی دراصل تیاری تھی ان پر حملہ آور ہو نے کی جنہیں آیت اللہ اور اسکے قریبی ساتھی جو اسلامی ریپلک پارٹی میں اب منظم ہو چکے تھے اور ایرانی بورژوازی بھی، سب سے بڑا خطرہ سمجھتے تھے۔۔۔۔اور وہ تھے مزدور طبقہ اور بایاں بازو، یہ حملہ تودہ پارٹی کے سٹالنسٹ کی معاونت سے کیا گیا۔۔۔۔ تا وقتیکہ خود اُن کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ ایران کی ”انقلابی‘‘ حکومت نے مزدور طبقے کی خود کو اُجاگر کرنے کی ہر کوشش اور بائیں بازو کی تنقید کو تشدد اور طاقت کے استعما ل سے اس دلیل کی بنیا دپر دبا دیا کہ یہ ”قومی یکجہتی“ کو نقصان پہنچاتے اور سامراجیت کو مضبوط کرتے تھے۔

خمینی کی حکومت نے ایران عراق جنگ جس میں ایک ملین ایرانی اور5لاکھ عراقی ہلاک ہوئے اور اس جنگ کو بہانہ بناتے ہوئے اسے وحشیانہ جبر کے طور پر استعمال کیا اور اس ریکشنری جنگ کے میکنزم کے ذریعے سامراج مخالف تحریک اور انقلابی جذبے اور اس طاقت کی شدت جس نے شاہ ایران کی حکومت کا خاتمہ کیا اس کا زائل کرسکے۔

سامراجیت کے ساتھ تجدید تعلقات اور منڈی نواز ”اصلاحات“:

اپنی وفات سے تھوڑا عرصہ قبل اور ان حالات میں جب امریکہ ایران عراق جنگ کو عذر کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ پر حملہ کرنے کی دھمکی دے رہا تھا، خمینی نے سمت کی اچانک تبدیلی کا حکمنامہ جاری کردیا۔ اسلامی جمہوریہ نے عراق سے جنگ کے ہر جانے کا مطالبہ ترک کردیا اور سامراجیت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی طرف اپنا رُخ موڑلیا۔ خمینی کے نامزد جانشین سُپریم لیڈر آیت اللہ خامنائی اور صدر رفسنجانی کے ذیر قیادت ایران نے تیزی سے آئی ایم ایف کی ”سٹرکچرل ایڈ جسٹمنٹ“ کی پالیسیؤں کو نافذ کیا، بشمولِ نج کاری، قوائد وضوابط میں نرمی اور سماجی اخراجات میں کمی، اس واضح مقصد کے ساتھ کہ یورپی اور اگر ممکن ہو تو امریکی سرمایہ کے ساتھ قریبی معاشی تعلقات کی تجدید کی جائے۔

1989سے بر سر اقتدار آنیوالے تمام صدور کے دور اقتدار میں جنہیں اسلامی جمہوریہ کے تمام بڑے دھڑوں جیسا کہ ”قدامت پرستوں“ ”اصول پرستوں“ اور ”اصلاح پسندوں“ کی حمایت حاصل رہی ہے، ایرانی حکومت نے ”پرومارکیٹ اصلاحات“ کے نام پر بتدریج ان تمام سماجی سہولتوں کو ختم کر دیا ہے جو انقلاب کے عروج پر مزدورطبقے اور شہری اور دیہی غریبوں کو دی گئی تھیں۔ یہ بات مقبولیت پسند احمدی نجاد کی حکومت کے بارے میں بھی اتنی ہی درست ہے جتنی کہ ”اصلاح پسند“ رفسنجانی اور خاتمی اور حسن روحانی کی، حسن روحانی تو ایک سرگرم نیو لبرل ہے جو 2013 سے ایران کا صدر ہے۔

آج کے ایران کی شناخت بے قابو اور بڑھتی ہوئی سماجی ناانصافی، وسیع بے روزگاری اور غیر محفوظ عارضی ملازمتیں ہیں۔

اسی طرح عالمی سطح پر، اسلامی جمہوریہ کی مُلا بورژواحکومت نے پچھلے تین عشروں سے سامراجی قؤتوں کی خوشنودی کے حصول کی پالیسی کو اختیار کر رکھا ہے۔ اس میں امریکی سامراجیت کی خوشنودی کا حصول بھی پوری طرح شامل ہے، واشنگٹن کے تہران کے سلسلہ دوستی کو بار بار مسترد کرنے اور قریباً مسلسل دشمنی سے قطعہ نظر، جس میں جمی کارٹر سے لیکر آج تک ہر صدر جنگ کی دھمکیاں بھی دیتا آرہا ہے۔

2001 میں ایران نے امریکہ کو افغانستان پر حملے کیلئے سیاسی معاونت اور آمدورفت کی سہولتیں فراہم کیں اور واشنگٹن کے حامد کرزئی کی ملک کے کٹھ پتلی صدر کے طور پر تعیناتی کو بھی سیاسی معاونت فراہم کی۔ 2003 میں جب امریکہ نے عراق پر حملے کی تیاری کی، ایران نے بُش انتظامیہ کے ساتھ خفیہ مذاکرات شروع کردیئے۔ امریکی فوجیوں کے بغداد پر قبضے کے فوری بعد، تہران نے خود کو امریکہ کے تمام سٹیٹجک اغراض کے ماتحت کرنے کی پیشکش کر دی، بشمول اسرائیل کو تسلیم کرنا، حماس کی ہر قسم کی امداد کا خاتمہ، اور حزب اللہ پر غیر مسلح ہونے کا دباؤ ڈالنااگر امریکہ صرف ایرانی حکومت کو تبدیل نہ کرنے کا عہد کرے۔

اُوبامہ نے ایران پر انتہائی ظالمانہ اقتصادی پابندیاں عائد کیں اور بار بار اسے حملے سے بھی ڈراتا رہا۔ پھر2015-2016 میں اس نے 1979 کے انقلاب کے بعد سے سب سے اہم امریکی ایرانی سفارتی معاہدہ کرنے کا فیصلہ کیا جس میں ایران کے سوّل نیوکلیئر پروگرام کے بڑے حصے کو ختم کرنے کے بدلے میں امریکی پابندیاں اُٹھانے پر اتفاق کیا گیا تھا۔

جیسا کہ ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ نے اس وقت وضاحت کر دی تھی، کہ اُبامہ کی اس تبدیلی کے پیچھے دو اغراض کار فرما تھیں: تہران کے ساتھ مکمل محاذ آرائی واشنگٹن کے بڑے حریفوں روس اور چائینہ کے خلاف اسکی عسکری۔سٹیٹجک جارحیت کو کمزور کر دیتی؛ اور ایران کو یورپی اور امریکی سرمایہ کاری کیلئے دوبارہ کھولنا ایران کی مُلا بورژوااشرافیہ کے درمیان خلیج سے فائدہ اُٹھانے کے نئے مواقع فراہم کر دیتا، اس میں وہ بڑا دھڑا تو شامل تھا ہی جو واشنگٹن کے ساتھ پارٹنر شپ بنانا چاہتا تھا، تاکہ ایران امریکہ کا ایک ماتحت اتحادی بن جائے۔

ڈبلیوایس ڈبلیو ایس نے متنبہ کیا تھا کہ ایران کے ساتھ نیوکلیئر معاہدے کی قدروقیمت اس کاغذ کے ٹکڑے کے برابر بھی نہیں تھی جس پر اُسے تحریر کیا گیا تھااور واشنگٹن کو جب بھی فائدہ نظر آیا وہ اسے توڑ دیگا۔

ٹرمپ نے بالکل یہی کیا ہے۔۔جنگ کے مترادف جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے۔۔ایران کے ساتھ عالمی تجارت پر یکطر فہ پابندی عائد کرتے ہو ئے جسکا مقصد ایران کی معیشت کو تباہ کرنا ہے۔

اس سارے عرصے میں ایران کے مزدور طبقے نے بھی یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ اخراجات میں کمی ا ور اُجرتوں میں کٹوتیوں کے اس سلسلے کو ختم کرنے پر کمر بستہ ہیں۔ اور اب وہ حکمران اشرافیہ کی ایران کے خلاف واشنگٹن کی چیرہئ دستیوں کا سارا بوجھ صرف اور صرف عام عوام پر منتقل کرنے کی مسلسل کوششوں کو بر داشت نہیں کرینگے۔

حالیہ برسوں میں مزدوروں نے نج کاری، کم اور غیر اداشُدہ اُجرتوں، ملازمتوں میں کمی، اور فرسودہ سماجی سہولتوں کے خلاف احتجاجی مظاہرے اور ہڑتالیں کی ہیں۔ 2018 کا آغاز ا ن قصبوں اور شہروں میں غربت اور سماجی نا انصافی کے خلاف احتجاجی مظاہروں سے ہوا تھا جو ہمیشہ حکومت کو عوامی مقبولیت کی بنیاد فراہم کرتے آئے تھے، کچھ مظاہرے متشدد بھی تھے، جنکی قیادت بے روزگار نو جوانوں کی۔ تہران کا جواب وحشیانہ جبرو استبداد اورالزامات کی بو چھاڑ تھا جس کا مقصد ان مظاہروں کو بیرونی ترغیب پر حکومتی تبدیلی کی کوشش قرار دیکر داغدارکرنا تھا۔

اس سب کے باوجود سماجی مخالفت کا عمل بڑھتا جا رہا ہے، اساتذہ، ٹرک ڈرائیور، کانکن، اسٹیل کے کارخانوں میں کام کرنے والے اور مزدور طبقے کے دیگر حصے پچھلے ایک سال سے گرفتاریوں اور تشدد کا سامنا کرتے ہوئے ہڑتالیں کر رہے ہیں۔بڑھتے ہوئے احتجاجی مظاہروں سے حکو مت کے خوف کا اظہار یوں ہوا ہے، کہ پچھلے ماہ ایران کے ریاستی ٹیلی ویژن نے ہفتا پے کے چینی کے کار خانوں میں ۰۰۰۴ مزدوروں کی ایک طویل ہڑ تال میں شریک کارکنوں کا بزورِ جبروتشدد حاصل کر دہ ایک اعتراف نشر کیا ہے جس میں اُنہیں یہ کہنے پر آمادہ کیا گیا تھا کہ وہ یہ کام بیرونی ”کیمونسٹو ں“ کی ہدایت پر کرتے ہیں۔

بالکل واضح ہے کہ سرمایہ دارانہ انحطاط اور اسکے نتیجے میں ہونیوالی سامراجی جارحیت میں اضافے کی صورتحال میں، ایرانی بورژوازی کیلئے سامراجیت اور مزدور طبقے کے درمیان توازن قائم کرنے اور اپنی چالیں چلتے رہنے کی گنجائش تیزی سے کم ہوئی ہے، جو اسلامی جمہوریہ کے بحران کو معیاری لحاظ سے نئی بلند سطح پر لے آئی ہے۔

امریکہ میں اور ساری دنیا میں مزدوروں کو واشنگٹن کی معاشی جنگ اور ایران پر فوجی حملے کی تیاریوں کی پوری قؤت سے مخالفت کرنی چاہیے۔ ایران کے خلاف سامراجی جارحیت کی مخالفت کرنے کیلئے یہ قطعاً ضروری نہیں ہے کہ ایرانی بورژوازی اور اسکی جمہوریہ کی ذرہ بھر بھی سیاسی حمایت کی جائے، اور اسکے لیئے عذرخواہی تو بلکل بھی نہیں۔ کیونکہ حقیقت میں تو ایران میں اور ساری دنیا میں سامراج کی مخالفت کی پائیدار بنیاد تو مزدورطبقہ ہی ہے۔

اہم سوال ایرانی مزدور طبقے کی بڑھتی ہوئی تحریک کو مسقل انقلاب کی ٹراٹسکسٹ حکمت عملی سے مصلح کرنا چاہیے: اُن کی سمت کا تعین کرنااور انہیں سیاسی طور پر تیار کرنا اور انہیں مزددور اقتدار کے حصول کی لڑائی کیلئے متحرک کرنا اور مشرق وسطیٰ کے مزدوروں اور محنت کشوں۔۔ایرانی، عرب، کرد، ترک اور اسرائیلی۔۔ کو یورپ اور شمالی امریکہ میں مزدور طبقے کی جنگ اور سامراجیت کے خلاف بڑھتی ہوئی تحریک کے ساتھ جوڑنا ہے۔

ایرانی مزدور طبقے کو 1979 کے تلخ تجربات سے ضرور سیکھنا چاہیے۔ ایسے ممالک میں جو تا ریخی طور پر جبرو استبداد کا شکار رہے ہیں، عوام کا کوئی بھی سلگتا ہوا مسئلہ۔۔ حقیقی آذادی سے چرچ کی ریاست سے علیحدگی تک، تمام قو میتوں کے درمیان حقیقی مساوات کا حصول اور فرقہ وارانہ امتیازات سے نجات تک، اور ہر فرد کیلئے سماجی حقوق اور سماجی برابری کے حصول تک۔۔ حل نہیں ہو سکتا جب تک سامراج اور بورژوازی کے تمام دھڑوں کے مقابلے میں مزدور طبقہ سوشلسٹ جمہو ریہ کے قیام کی اپنی لڑائی میں تمام محنت کشوں کو اپنے ساتھ اکٹھا کرتے ہوئے خود کو ایک آزاد خود مختار سیاسی قؤت نہ بنالے۔