اُردُو

ایران نے اختلاف رائے اور احتجاج کے خلاف بڑھتے ہوئے کریک ڈاؤن کے دوران فلم ڈائریکٹرز کو قید کر دیا۔

2010 کے بعد سے اپنی فلمی صنعت کے خلاف سب سے بڑے کریک ڈاؤن میں، ایران نے بین الاقوامی شہرت یافتہ فلم ساز 62 سالہ جعفر پناہی کو حکومت پر تنقید کرنے کے بعد چھ سال قید کی سزا کا حکم دیا۔

پناہی کو 11 جولائی کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ ایک اور معروف فلمساز محمد رسولوف اور مصطفیٰ الاحمد کی گرفتاری کے لیے پراسیکیوٹر کے دفتر گئے تھے۔ ان دونوں کو 8 جولائی کو تیل کی دولت سے مالا مال جنوب مغربی صوبہ خوزستان کے آبادان میں 23 مئی کو ایک کثیر المنزلہ عمارت کے گرنے پر حکام کے ردعمل پر تنقید کرنے کے بعد حراست میں لیا گیا تھا، جس میں 43 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ایرانی حکام نے فلم سازوں پر ملک سے باہر اپوزیشن گروپوں سے روابط رکھنے اور ریاستی سلامتی کو نقصان پہنچانے کی سازش کا الزام لگایا۔

جعفر پناہی، 2007

ان کی قید صدر ابراہیم رئیسی کی ملاؤں کی زیر قیادت بورژوا قوم پرست حکومت کی جانب سے فلم سازوں کو خاموش کرنے اور حکومت کے دیگر ناقدین کو سیاسی طور پر دھمکیاں دینے کی وسیع تر کوشش کا حصہ ہے۔ یہ زندگی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف کسی بھی مخالفت کے خلاف دھمکی اور جبر کی حکومتی مہم کے درمیان رونما ہوئی ہے جس کی وجہ سے مزدوروں اور دیہی محنت کشوں کے لیے، نہ صرف ایران بلکہ پوری دنیا میں، اپنے خاندان کا پیٹ بھرنا ناممکن ہو رہا ہے۔

مئی میں آبادان عمارت کے منہدم ہونے کے بعد، مقامی حکام نے امدادی ٹیموں کو تلاش میں مدد کے لیے بھیجنے کے بجائے، رضاکاروں اور سوگواروں کے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے انسداد فسادات کے دستے تعینات کیے اور کسی بھی زندہ بچنے والوں کی مکمل تلاش سے قبل عمارت کو منہدم کرنے کے لیے سیکورٹی فورسز کو بھیج دیا۔. مشتعل ہجوم بے تحاشا بدعنوانی اور ضابطوں کی خلاف ورزی پر احتجاج کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے جس کی وجہ سے تباہی ہوئی، اور حکام کے خلاف قانونی چارہ جوئی اور سزا کا مطالبہ کیا۔

مظاہرے ملک بھر کے دوسرے شہروں تک پھیل گئے جو جلد ہی حکومت مخالف ریلیوں میں تبدیل ہو گئے۔ حکام نے جواب میں انٹرنیٹ تک رسائی بند کر دی، دکانیں بند کرنے کا حکم دیا اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس، انتبا کرنے کے لئے ہوئی فائرنگ، بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور دھمکیاں دے کر پولیس فورس بھیجی۔ رسولوف نے عمارت کے گرنے سے متعلق 'بدعنوانی، چوری، نا اہلی اور جبر' پر دوسرے فلم سازوں اور فنکاروں کے دستخطوں سے ایک کھلا خط لکھا اور سیکورٹی فورسز سے مطالبہ کیا کہ وہ 'اپنے ہتھیار ڈال دیں۔'

جعفرپناہی اور رسولوف کو اس سے پہلے 2010 میں 'نظام کے خلاف پروپیگنڈہ' کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا، جس میں ان کی فلموں اور مظاہروں میں حکومت پر تنقید کی گئی تھی۔ جعفر پناہی کو اس کے مقدمے کی سماعت سے قبل دو ماہ تک قید رہنے کے بعد چھ سال کی معطل جیل کی سزا سنائی گئی تھی۔ پچھلے 12 سالوں سے ان پر سفری پابندی عائد تھی اور فلمیں بنانے سے روک دیا گیا تھا، حالانکہ ان کی 2015 کی فلم ٹیکسی سمیت ان کی آنے والی فلموں نے ان پابندیوں سے بچنے کی کوشش کی۔ وہ اب تہران کی بدنام زمانہ ایون جیل میں ہے۔

رسولوف کو 2011 میں ایک سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان کی فلم There Is No Evil، جس میں ایران میں سزائے موت اور شخصی آزادیوں کو چھونے والی چار کہانیوں سے متعلق تھی نے 2020 میں برلن فلم فیسٹیول کا گولڈن بیئر انعام جیتا۔ اور تین فلموں کے لیے رسولوف کو ایک سال قید سزا سنائی گئی۔ جن کے بارے میں حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ 'نظام کے خلاف پروپیگنڈا' تھا۔ جب وہ اپیل پر جیت گئے، ان پر فلمیں بنانے اور بیرون ملک سفر کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔

فیروزہ خسروانی

جعفر پناہی کی قید دو ماہ بعد ہوئی جب سیکورٹی فورسز نے فیروزہ خسروانی (فیملی کی ریڈیوگرافی کی ڈائریکٹر اور جسکا 2021 میں ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس نے انٹرویو کیا تھا) اور مینا کیشوارز، دو بین الاقوامی شہرت یافتہ دستاویزی فلم ساز اور معروف فوٹوگرافر ریہانے تراوتی کے گھروں پر چھاپے مارے۔ کم از کم 10 دیگر دستاویزی فلم سازوں اور پروڈیوسرز کے موبائل فون، لیپ ٹاپ اور ہارڈ ڈرائیوز ضبط کر لیے۔ تینوں خواتین کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا جب ان کے اہل خانہ نے ضمانت کے طور پر اپنی جائیداد کیفرد حوالے کر دیے، حالانکہ ان تینوں میں سے کسی پر بھی باضابطہ طور پر فرد جرم عائد نہیں کی گئی ہے۔

فلم سازوں کے خلاف یہ کریک ڈاؤن اس وقت سامنے آیا ہے جب ایران کی کلیپٹو کریسی ایک سماجی آتش فشاں کے اوپر بیٹھی ہے کیونکہ غربت ایران کی 85 ملین آبادی کے 80 فیصد کو گھیرے میں لے رہی ہے اور درمیانہ طبقہ بالکل مٹ چکا ہے۔واشنگٹن کی طرف سے برسوں کی سخت اقتصادی پابندیوں کے اثرات کے تحت ایران کی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ کے یکطرفہ طور پر 2015 کے جوہری معاہدوں کو ترک کرنے کے بعد جس کا مقصد تہران کے جوہری پروگرام کو روکنا تھا، اس نے پابندیاں دوبارہ عائد کیں اور ایران کی معیشت بشمول اس کے تیل اور گیس کی برآمدات اور بینکنگ سسٹم کو نشانہ بنانے والے اضافی اقدامات سے 'زیادہ سے زیادہ ایران پر دباؤ' ڈالنے کا انبار لگا دیا۔

نتیجے کے طور پر، ایران کی تیل اور گیس کی برآمدات، جو کہ آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے، گر گئی ہے۔ ایران کی بڑھتی ہوئی مشکلات کا شکار حکومت نے جوہری معاہدے کے تحت کیے گئے اپنے کچھ وعدوں سے بتدریج پیچھے ہٹاتے ہوئے ان پابندیوں کا جواب کچھ یوں دیا، جس میں یورینیم کی افزودگی کو 60 فیصد تک بڑھانا، جو ہتھیاروں کے بنانے کے درجے 90 فیصد سے کچھ دور، اور یورینیم کی افزودگی کی جگہوں پر کیمرے بند کرنا۔ یہ اقدامات امریکی دباؤ کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنے اور معاہدوں پر واپسی پر بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ بات چیت میں اپنی سودے بازی کی پوزیشن کو مضبوط کرنے کے لیے اٹھائے گے۔

تہران کو امید تھی کہ شاہد ایک تجدید شدہ معاہدہ اس کی معیشت کو بچائے گا۔ خاص طور پر یوکرین میں روس کے خلاف امریکہ اور نیٹو کی اکسائی گئی جنگ کے بعد تیل اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کے بعد۔ لیکن اب جیسا کہ واشنگٹن روس اور چین کے ساتھ جنگ ​​کی اپنی وسیع تر تیاریوں کے حصے کے طور پر ایران مخالف اتحاد کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے- تہران نے جن کے ساتھ تیزی سے قریبی تعلقات استوار کیے ہیں، ایسے معاہدے کا امکان بہت کم دکھائی دے رہا ہے۔امریکہ کی سخت ترین اقتصادی ناکہ بندی نے ایرانی عوام کی غربت کو مزید گہرا کر دیا ہے اور کویڈ-19وبائی مرض کے لیے ملکی اقدامات کو بلکل مفلوج کر دیا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق وبا نے 142,000 سے زیادہ لوگوں کی جانیں لے لی ہیں۔ کرنسی، جس کی باضابطہ شرح تبادلہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں 42,000 ریال ہے، اب بازاروں میں ڈالر کے مقابلے میں تقریباً 320,000 ریال میں تجارت کر رہی ہے، یعنی ایران کی کرنسی اب 2015 کے جوہری معاہدے کے وقت اپنی قیمت کا دسواں حصہ ہے۔ بیرونی اشیا اور عوام کو سروسز مہیا کرنا خدمات بہت مہنگا پڑتا ہے اور مقامی طور پر تیار کردہ سامان کی قیمت میں اضافہ بڑھتا ہے۔

حکومت نے تیل اور دیگر محصولات اور معاشی سرگرمیوں کے نقصان کو پورا کرنے اور اپنے بجٹ کے خسارے کو دور کرنے کے لیے رقم چھاپنے کا سہارا لیا ہے۔ اس نے بازار کی شرح یا 'مارکیٹ اپروچ' کے حق میں اشیائے ضرورت اور اشیائے خوردونوش کی قیمتیں مقرر کرنے کے لیے 42,000 ریال کی باضابطہ شرح مبادلہ کو گرا دیا ہے جو کہ آٹھ گنا زیادہ ہے، جس سے اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان پر پہنچ گئی ہیں۔

ایران کی سرکاری افراط زر کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، ماہانہ افراط زر کی شرح جون میں 12 فیصد تک پہنچ گئی ہے، جو ایک سال پہلے کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ تھی، جس میں کمی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ خوراک کی قلت اور اونچی قیمتیں، خشک سالی جس نے پورے خطے کو متاثر کیا ہے، پانی کے نظام اور زرعی پیداوار کی دہائیوں سے جاری بدانتظامی اور بجلی کی دائمی قلت جس کی وجہ سے کچھ کارخانے 50 فیصد اور دیگر 20-30 فیصد کی صلاحیت پر کام کر رہے ہیں۔ ان تمام عوامل نے مل کر زندگی کے حالات کو ناقابل برداشت بنا دیا ہے۔

گزشتہ چند مہینوں میں ملک بھر میں بڑے پیمانے پر حکومت مخالف مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں، جو حکومت کی جانب سے سبسڈیز میں کٹوتیوں اور اب بیکار پنشن کی وجہ سے پھوٹ پڑے ہیں۔ بڑھتی ہوئی غربت کا ایک بڑا عنصر پچھلے پانچ سالوں میں مکانات کی قیمتوں میں نو گنا اضافہ ہے جس نے نوجوان متوسط ​​طبقے کو ہاؤسنگ مارکیٹ سے باہر کر دیا ہے۔ جبکہ 40 سال پہلے پانچ میں سے صرف ایک گھر اپنا گھر کرائے پر دیتا تھا، اب تین میں سے ایک گھر کرائے پر دیتا ہے۔ تہران میں کرائے پر لینے والے خاندانوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے، جہاں صرف اس سال کرایوں میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے، یعنی 60-70 فیصد تک آمدنی کرائے پر جاتی ہے، ایسے حالات میں جہاں اجرت کم ہوتی ہے اور اکثر مہینوں کے بقایا جات ادا کیے جاتے ہیں۔ ایک حیران کن 19 ملین لوگ کچی آبادیوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔

اپنے سامراجی دشمنوں سے کوئی مہلت نہ ملنے کے بعد، ایران کی حکمران اشرافیہ نے احتجاج کا جواب گرفتاریوں، دھمکیوں، تشدد اور جبر سے دیا ہے کیونکہ وہ اپنی معاشی دولت اور سیاسی طاقت کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ زیادہ اجرتوں کی حمایت میں اساتذہ کے حالیہ مظاہروں کی قیادت کرنے یا اس میں حصہ لینے کے الزام میں مئی سے قید ٹریڈ یونین اور مزدور کارکنوں کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ اگر وہ اپنے رشتہ داروں کی گرفتاریوں اور نظربندی کی تشہیر جاری رکھتے ہیں تو سیکیورٹی ایجنٹوں نے انہیں دھمکیاں دی ہیں جب کہ ملاقتوں پر پابندی عائد ہے۔