یہ ترجمعہ اس ارٹیکل کا ہے جو انگلیش میں Protests in Iran enter second week after young woman’s police-custody death شائع ہوا۔
ایران کے کئی بڑے شہروں میں ملاؤں کی حکومت کی اخلاق کی پیروی کرنے والی پولیس کے ہاتھوں 22 سالہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد دوسرے ہفتے سے احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ جہاں یہ مظاہرے ملک کی خوفناک سماجی اور معاشی صورتحال اور بورژوا اسلامی جمہوریہ میں سیاسی اقتدار پر شیعہ علما کی اسٹیبلشمنٹ کی اجارہ داری پر عوام کے غصے سے بھڑک رہے ہیں، سامراجی طاقتیں بے شرمی کے ساتھ اپنے غارات گر مفادات کے لیے احتجاج کا فائدہ اٹھانا چاہتی ہیں۔
امینی، صوبہ کردستان کے شمال مغربی شہر ساقیز سے تعلق رکھتی ہیں اس کو 13 ستمبر کو تہران میں بدنام زمانہ اخلاق کی پیروی کرنے والی پولیس کی جانب سے حجاب کو 'غیر مناسب' طریقے سے پہننے پر حراست میں لیا گیا جو خواتین کے لیے اسلامی جمہوریہ کے سخت لباس کوڈ کو نافذ کرنے کی ذمہ دار ہیں۔ امینی اس وقت اپنے اہل خانہ کے ساتھ دارالحکومت گھومنے کے لیے گی تھیں۔ رپورٹس کے مطابق پولیس نے اسے شدید مارا پیٹا، اور مبینہ طور پر اس کے سر پر ڈنڈے سے مارا اور پھر اسے پولیس کی گاڑی سے زوردار ٹکر ماری۔ کوما کی حالت میں بعد میں اسے ہسپتال لے جایا گیا اور تین دن بعد اس کی موت واقع ہو گئی۔عوامی غصے کو ٹھنڈا کرنے کی ایک بھونڈی کوشش میں حکام نے بعید ازامکان دعویٰ کیا کہ نوجوان خاتون کی موت دل کا دورہ پڑنے یا دماغی ہیمرج سے ہوئی ہے جس کا کسی قسم کی چوٹ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کے گھر والوں نے اس طرح کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امینی کو صحت کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔
جمعہ تک ایرانی سرکاری میڈیا نے اطلاع دی ہے کہ احتجاج شروع ہونے کے بعد سے اب تک 35 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سکیورٹی فورسز کے پانچ ارکان بھی شامل ہیں۔ جلاوطن گروپوں نے 50 کے قریب اموات کی اطلاع دی ہے، جن میں کئی بچے بھی شامل ہیں۔ ان حکومت مخالف گروہوں سے وابستہ کارکنوں نے فوٹیج جاری کی جس میں دکھائی دیا جا رہا ہے کہ سیکورٹی فورسز مظاہرین پر براہ راست گولیاں چلا رہے تھے۔ چھاپوں میں سینکڑوں سیاسی کارکنوں اور حکومت کے مخالفین کو پکڑ کر حراست میں لیا گیا ہے۔
یہ مظاہرے ابتدائی طور پر مغربی ایران کے ان شہروں میں شروع ہوئے جہاں کرد اقلیت کا غلبہ تھا، امینی کا تعلق بھی اس اقلیت سے تھا۔ پھر ہفتہ کے کچھ ہی دنوں کے اندر مظاہرے تہران اور دوسرے شہروں میں پھیل گئے، جہاں ان کی زیادہ تر واضح حمایت کسی حد تک یونیورسٹی کیمپس سے آئی۔ مظاہروں کے نمایاں کرد زبان کے نعروں میں 'آمر مردہ باد'، جو کہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کی طرف اشارہ تھا اور 'خواتین، زندگی، آزادی!' شامل تھے۔
صدر ابراہیم رئیسی جن کا تعلق مذہبی اسٹیبلشمنٹ کے قدامت پسند سخت گیر دھڑے سے ہے نے ہفتے کے روز مظاہرین کا 'فیصلہ کن مقابلہ' کرنے کا عزم کیا۔ سیکیورٹی فورسز کو 'ان لوگوں کے ساتھ فیصلہ کن انداز میں نمٹنا چاہیے جو ملک کی سلامتی اور سکون کی مخالفت کرتے ہیں'، اس کی اطلاع سرکاری میڈیا نے ایک مرنے والے سیکیورٹی سروس کے رکن کے اہل خانہ سے کال کے دوران کہی۔ انسٹاگرام اور واٹس ایپ جیسے مقبول سوشل میڈیا چینلز سمیت انٹرنیٹ تک رسائی بدھ کے روز سے حکام کی جانب سے مظاہروں کو روکنے کے لیے ان پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔
واقع کے شروع میں رئیسی نے امینی کے خاندان سے بات کرنے کے بعد اس کی موت کی مکمل تحقیقات کا وعدہ کرتے ہوئے مفاہمت آمیز لہجہ اختیار کرنے کی کوشش کی۔ 2021 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے رئیسی ایک نمایا ملا عالم جو کہ 1988 میں سیاسی قیدیوں کو اجتماعی پھانسی دینے میں اپنے کردار کے لیے بدنام ہیں، نے اخلاقی پولیس کے ذریعے حجاب کے رہنما اصولوں کے نفاذ کو سخت کرنے کی ہدایت کی ہے۔
مظاہروں میں تیزی کی سب سے بڑی وجہ بگڑتا ہوا سنگین معاشی بحران ہے، جو سب سے بڑھ کر سامراجی طاقتوں کی جانب سے نافذ کردہ ظالمانہ معاشی پابندیوں کی وجہ سے تباہ کن اثرات سے پیدا ہوا ہے جو کہ ایک جنگ کے مترادف ہے۔ ایرانی کرنسی موسم گرما کے دوران ڈالر کے مقابلے میں اب تک کی کم ترین سطح پر آگئی اور افراط زر کی شرح 40 فیصد سے زیادہ ہو چکی ہے۔ ایران کی تیل کی برآمدات میں کمی آئی ہے جو ملک کی آمدنی کا سب سے اہم ذریعہ رہا ہے۔
اس ماہ کے اوائل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں، اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ ایلینا ڈوہان نے 80 ملین آبادی والے ملک پر امریکی قیادت کی پابندیوں کے کئی دہائیوں کے اثرات کی تباہ کن تصویر کشی کی اور انہیں فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ ڈوہان نے رپورٹ کیا کہ اگرچہ ادویات اور خوراک کو ان پابندیوں سے خارج کر دیا جانا چاہیے، لیکن امریکی حکام کی جانب سے استثنا کو یقینی بنانے کے لیے فراہم کیے گئے لائسنس 'غیر موثر اور تقریباً غیر موجود دکھائی دیتے ہیں۔' اس نے مزید لکھا ہے، ' یہ پابندیاں تمام ایرانیوں کی صحت کے اعلیٰ ترین معیار کے حق کے حصول کی راہ میں سنگین رکاوٹیں ہیں۔'
جارج ڈبلیو بش اور اوباما انتظامیہ کے دور حکومت میں واشنگٹن نے اپنے یورپی اتحادیوں کے ساتھ مل کر ڈرامائی طور پر ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں کی مہم کو تیز کر دیا تھا جب 1979 میں بڑے پیمانے پر عوامی بغاوت نے امریکی حمایت آفتہ شاہ محمد رضا پہلوی کی خون آلود حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ اب یہ پابندیاں جو جنگ کی دھمکیوں کے ساتھ مل کر تھیں یعنی ('تمام آپشنز موجود ہیں')، 'حکومت کی تبدیلی' لانے کے لیے دو طرفہ امریکی دباؤ کا حصہ تھیں یا کم از کم علما اسٹیبلشمنٹ میں دراڑ ڈال کر اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے تہران کو مزید براہ راست مغربی تسلط میں لانا چاہتی ہے۔
2015 کے جوائنٹ کمپری ہینسو پلان آف ایکشن(جے سی پی آؤ اے) کے تحت اوباما انتظامیہ نے تہران کو یہ قبول کرنے کے بدلے میں سزا دینے والی اقتصادی پابندیوں میں نرمی کرنے پر اتفاق کیا کہ اس کا سول نیوکلیئر پروگرام وسیع اور بے مثال پابندیوں اور بین الاقوامی زیر نگرانی کے تابع ہوگا۔
تہران جس نے ہمیشہ سے اسرار کیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام صرف شہری مقاصد کے لیے ہے۔ اس نے معاہدے کی دستاویز کی شرائط کو تسلیم کرتے ہوئے اسکی تعمیل کی ہے۔
تاہم واشنگٹن نے معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے انکار کر دیا۔ اور پھر ٹرمپ کے دور میں اس نے مئی 2018 میں ایران کے جوہری معاہدے کو مسترد کر دیا۔ اور پھر ایک 'زیادہ سے زیادہ دباؤ' مہم کے ایک حصے کے طور پر ایران کے خلاف ہر طرح کی اقتصادی جنگ شروع کی اور کسی بھی ایسے ملک کے خلاف انتقامی اقدامات کی دھمکی دی جو اس کی غیر قانونی پابندیوں کی پابندی نہیں کرتا۔
اگرچہ یورپی سامراجی طاقتوں نے ٹرمپ کے اشتعال انگیز اقدام کی مخالفت کرنے اور تہران کو عالمی منڈی سے منسلک رہنے کے لیے متبادل تجارتی اور مالیاتی آپشنز پیش کرنے کے کھوکھلے وعدے کیے لیکن یہ وعدے محض خطوط کی حد تک رہے۔ ایران کے ساتھ بین الاقوامی قوانین کو برقرار رکھنے اور تعلقات کو برقرار رکھنے کے بجائے انہوں نے اپنے منافع بخش کاروباری مفادات کے تحفظ اور امریکہ کے ساتھ جیو سٹیٹجک تعلقات کو زیادہ فوقیت دیتے ہوئے یورپی کمپنیاں بڑے پیمانے پر ایران سے دستبردار ہوگئیں اور یورپی طاقتیں بھی اسکے خلاف صف آرا ہوگئیں۔
جہاں سے ٹرمپ نے چھوڑا تھا وہیں سے پھر بائیڈن انتظامیہ نے ایران پر دباؤ بڑھانا جاری رکھا ہوا ہے بشمول اشتعال انگیز فوجی دھمکیاں اور اقدامات کے ساتھ جوہری معاہدے کے وعدے کی بحالی کے لیے مزید پیشگی شرائط متعارف کیں۔ بائیڈن نے خلیجی ریاستوں اور اسرائیل کا ایران مخالف اتحاد بھی تیار کرتے ہوئے اسے وسعت دی ہے جسے واشنگٹن نے شام میں ایرانی اہداف کے خلاف انکے جارحانہ ہوائی حملوں کو تیز کرنے کے لیے کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔
اس تمام ریکارڈ کی روشنی میں امینی کی موت کے بعد سامراجی طاقتوں کی ایرانی عوام کے 'حقوق' کے بارے میں اچانک تشویش سراسر منافقت اور دھوکہ دھی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ بدھ کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنی تقریر کے دوران بائیڈن نے اعلان کیا 'آج ہم ایران کے بہادر شہریوں اور بہادر خواتین کے ساتھ ہم کھڑے ہیں جو اس وقت اپنے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے مظاہرہ کر رہیہیں۔' سکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے تہران پر 'پرامن مظاہرین کو پرتشدد طریقے سے دبانے' کی پرزور مذمت کی کیونکہ مظاہرین نے امریکی پابندیوں سے مستثنیٰ ہونے کا اظہار کیا تاکہ انٹرنیٹ سافٹ ویئر کمپنیوں کو انٹرنیٹ پر ریاستی پابندیوں کو روکنے کے مقصد سے ایرانی مارکیٹ میں ٹیکنالوجی فراہم کرنے کی اجازت دی جائے جرمن چانسلر اولاف شولز نے ٹویٹر پر لکھا، 'ہے کہ مہسا امینی کی تہران میں پولیس کی حراست میں موت ایک خوفناک عمل ہے چاہئے یہ دنیا میں کہیں بھی ہو، خواتین کو اپنی زندگی کے خوف کے بغیر اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کا حق ہونا چاہیے۔‘‘
سامراجی اشاروں پر وہی میڈیا آؤٹ لیٹس جنہوں نے گزشتہ سات ماہ سے روس کے خلاف امریکہ-نیٹو کی جنگ کو قانونی حیثیت دینے کے لیے جنگ کے حامی پروپیگنڈے کے چرچے کو آگے بڑھایا، جس کی وجہ سے دونوں اطراف سے دسیوں ہزار لوگ مارے گئے اب انہیں اچانک ہمدردی کا خیال آیا ہے۔ ایرانیوں کے 'انسانی حقوق' کے بارے میں نیویارک ٹائمز، برطانیہ کے گارڈین، جرمنی کے ڈیر اسپیگل، اور دیگر نے کھوکھلی جھوٹی اخلاقیات کو بڑھانے کے کالم پر کالم لکھے تہران کی حکومت کی مذمت کی اور ایرانی عوام کے 'حقوق' اور 'آزادی' کی حمایت کا اعلان کیا۔
ایران میں کویڈ -19 سے لاکھوں کی تعداد میں ہلاکتوں پر ان لوگوں اور جریدوں کی اشاعتوں کو کوئی دکھ یا پریشانی نہیں ہوئ اور جنکی بڑی تعداد کو بچایا اور اس وبا کو مکمل طور پر روک جا سکتا تھا۔ جس کی ایک بڑی وجہ ایران کو امریکہ کے تحت صحت کی دیکھ بھال کی ٹیکنالوجی اور ادویات تک رسائی سے بدنیتی پر مبنی بندش اور امریک کی قیادت میں پابندیوں کی حکومت کا سامنا ہے۔ یمن کے غریب ملک میں ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف سعودی فرمانروا محمد بن سلمان کی وحشیانہ جنگ میں امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی بھی مکمل طور پر شریک ہیں جہاں 2015 سے اب تک دسیوں ہزار شہری مارے جا چکے ہیں اور لاکھوں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ چکے ہیں۔.
جب بات سیاسی اسٹیبلشمنٹ اور بورژوا میڈیا کی ہو تو پھر واضح دوہرے معیار کی وضاحت کی جانی چاہیے، ہمیشہ کی طرح مخصوص سامراجی مفادات کے مطابق واشنگٹن، برلن، اور دیگر بڑی طاقتیں امینی کی موت پر ہونے والے مظاہروں کو تہران حکومت کو جوہری معاہدے کی تجدید کے مقصد سے بڑے پیمانے پر تعطل کا شکار ہونے والے مذاکرات میں رعایت لینے کے غرض کے لیے ایرانی حکومت پر دباو کے طور پر استمال کرتے ہیں۔ابھی تک کسی معاہدے تک نہ پہنچنے پر ناکامی مکمل طور پر سامراجیوں پر عائد ہوتی ہے، جنہوں نے تہران کے خلاف ایک کے بعد ایک اشتعال انگیزی کی ہے۔ جون میں امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں نے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی (آئی اے ای اے) میں ایک قرارداد منظور کرنے کے لیے تعاون کیا جس پر روس اور چین نے اعتراضات کیا اور ہندوستان اور پاکستان نے ووٹ استعمال نہیں کیا جس میں ایران پر آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کی تعمیل نہ کرنے کا الزام لگایا گیا۔بائیڈن نے ایران کیاسلامی انقلابی گارڈ کو دہشت گرد تنظیموں کی امریکی فہرست سے نکالنے سے بھی انکار کر دیا ہے، جو تہران کا ایک اہم مطالبہ تھا، حالانکہ اب ایسا لگتا ہے کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔
7 ستمبر کو آئی اے ای اے نے اشتعال انگیز طور پر زور دیا کہ وہ 'یہ یقین دہانی فراہم کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن ہے۔' حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے خود اعتراف کیا ہے کہ 2003 کے بعد سے ایران کے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کے کوئی ثبوت نہیں ہیں، جیسا کہ سی آئی اے کے موجودہ ڈائریکٹر ولیم برنز نے اعتراف کیا ہے۔
جوہری مذاکرات کے علاوہ، سامراجی طاقتیں ایران کی بورژوا مہزبی حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے پرعزم ہیں کیونکہ وہ وسطی ایشیا میں روس اور چین کے ساتھ اپنی شراکت داری کو مزید گہرا کر رہا ہے۔ اس ماہ کے اوائل میں ازبکستان میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں ایران نے بیجنگ اور ماسکو کی قیادت میں سلامتی اور تجارتی بلاک کا مکمل رکن بننے کے لیے ذمہ داریوں کی ایک یادداشت پر دستخط کیے تھے۔ ایرانی وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ یہ اقدام 'مختلف اقتصادی، تجارتی، ٹرانزٹ اور توانائی کے تعاون کا ایک نیا مرحلہ ہے۔'
ازبکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کے لیے الگ الگ معاہدوں پر دستخط کیے گئے۔ اس کے علاوہ اگست میں تہران نے قازقستان کے ساتھ ایک نئے ریلوے منصوبے کا اعلان کیا تھا جس کا مقصد وسطی ایشیا میں تجارتی تعلقات کو فروغ دینا ہے اور وعدہ کیا کہ وہ اب سے ایران اور روس کے درمیان تجارت امریکی ڈالر کے بجائے دونوں ممالک کی اپنی کرنسیوں میں کرے گا۔
صدر رئیسی مذہبی اسٹیبلشمنٹ کے سخت گیر دھڑے کی نمائندگی کرتے ہیں جو سابق صدر حسن روحانی اور نام نہاد 'اصلاحات' ونگ کی جوہری معاہدے کے ذریعے امریکی اور یورپی سامراج کے ساتھ موافقت تک پہنچنے کی کوششوں سے کبھی مکمل طور پر مفاہمت نہیں کر سکا۔شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس کے موقع پر روسی صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ ملاقات کے دوران رئیسی نے ایران کی شنگھائی تعاون تنظیم کی رکنیت کے بارے میں کہا کہ امریکہ کی طرف سے پابندیاں عائد کرنے والے ممالک جیسے ایران، روس یا دیگر ممالک کے درمیان تعلقات بہت سے مسائل اور ایشوز پر قابو پا سکتے ہیں اور انہیں مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔امریکی سمجھتے ہیں کہ وہ جس ملک پر بھی پابندیاں لگائیں گے اور اٰسے روک دیا جائے گا ان کا یہ خیال غلط ہے۔
یہاں تک کہ تباہ کن جوہری تصادم کو جنم دینے کے خطرے کے باوجود بھی یہ یوکرین میں روس کے ساتھ جنگ چھیڑنے پر مزید شدت کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، مزید براں امریکی سامراج مشرق وسطیٰ میں دشمنی کی ایک بڑی تیزی اور شدت کے ساتھ منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ بائیڈن کا جولائی میں خطے کا دورہ جہاں اس نے اسرائیل اور سعودی عرب کا دورہ کیا جسکا مقصد واشنگٹن کے ایران مخالف اتحاد کو تل ابیب اور خلیجی حکومتوں کے درمیان مضبوط کرنا تھا۔ایران کی بورژوا علما کی حکومت جو سماجی بارود کے ڈھیر پر بیٹھی ہوئی ہے، سامراجی اشتعال انگیزیوں کی مخالفت اور جواب میں وہ روس کی سرمایہ دارانہ مالیاتی اشرافیہ کے ساتھ قریبی اتحاد کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتی جو سامراجیوں سے اپنے مفادات کے تحفظ کی اپیلوں اور خون خرابے کی ایٹمی تباہ کن دھمکیاں کے درمیان گھومتی ہیں۔ اس اندھی گلی سے نکلنے کا واحد راستہ ایرانی محنت کشوں کے لیے یہ ہے کہ وہ اپنی جدوجہد کو پورے مشرق وسطیٰ اور بین الاقوامی سطح پر محنت کش طبقے کے ساتھ ایک سوشلسٹ اور بین الاقوامی پروگرام کی بنیاد پر متحد کریں۔